والدہ ماجدہ اور دادا محترم سے مفارقت

قضا و قدر کا کرشمہ ہی تھا کہ چھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اسی عہد طفولت میں والدہ ماجدہ بھی خداکو پیاری ہوگئیں؛ لیکن دادا محترم کا مشفقانہ سایہ ابھی باقی تھا تربیت و پرورش کی ذمہ داری بھی دادا محترم فرما رہے تھے، ابھی ماں کا غم غلط بھی نہ ہوا تھا کہ دادا بھی داغ مفارقت دے کر خدا کو پیارے ہوگئے، اب تربیت و پرورش کا بار چچا محترم ابوطالب نے بڑی خوش اسلوبی اور انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ اٹھایا اور ماں باپ، یا دادا کے غم کو غلط فرمانے میں مکمل تعاون دیا؛ لیکن خداوند قدوس اپنے محبوب کو اس طریقے کے واقعات و حوادثات سے اشارہ دینا چاہتا تھا کہ اصل مربی اور رب وہ ذات ہے جو حَیٌّ لاَیَمُوْتُ ہے اور آپ ﷺ کو ظاہری مربیوں کی تربیت اور پرورش سے بے نیاز فرمادیا یا پھر ایسی پرورش ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل کر نہ کرسکے، لہٰذا عجیب شان والا بچہ ہے اور نرالے اوصاف سے متصف ہے کہ نہ کھیل ہے نہ کود، نہ بچوں سی ضد ہے اور نہ بیہودہ حرکتیں، نہ لڑائی ہے نہ جھکڑا؛ بلکہ ایسے اوصاف ہیں جو بڑوں بڑوں میں ناپید ہیں، ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کو فطرتِ ثانیہ بنالینا کہ عرب ’’صادق‘‘ کالقب دینے پر مجبور ہوئے؛ حالانکہ اس دورِ جاہلیت میں خلافِ واقعہ اور جھوٹ کو ایک کمال تصور کیا جاتا تھا، اسی طرح امانت و دیانت آپ ﷺ میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ عبداللہ کے اس دُرِّ یتیم اور آمنہ کے لعل کو قریش ’’امین‘‘ سے یاد کرتے تھے، جب کہ اس شرور و فتن کے دور میں بچوں کو چھوڑئیے بڑوں میں بھی شاذ و نادر ہی امانت و دیانت پائی جاتی تھی۔

No comments:

Post a Comment