قرآن کی واضح تصریحات کے بعد کسی قسم کی تاویل اور تفرد کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہر عورت اپنے خاوند کی گھر والی یعنی شوہر کی اہل بیت ہے۔ چنانچہ حقیقی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اہل بیت کا جب ذکر آئے گا تو اس میں سب سے پہلے ان کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر بیویاں مراد ہوں گی۔ اس کے ساتھ ان کی اولاد اور پھر ان کی اولادیں تبعاً اس میں داخل ہوں گی۔ آنحضرت ﷺ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت ابوالعاص قاسم بن ربیع رضی اللہ عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا و حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اپنے خاوند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہل بیت میں۔ جب بھی آنحضرت ﷺ کے اہل بیت کا لفظ بولا جائے گا تو اس سے حقیقی طور پر آپ ﷺ کی مقدس ازواجِ مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن مراد ہوں گی۔
جو قدیم و جدید بعض علماء اسلام نے حدیث عباء اور حدیث ثقلین کی وجہ سے آپ ﷺ کے نواسے اور نواسیوں اور ان کی اولاد کو اہل بیت عظام میں داخل کیا ہے، وہ آیاتِ قرآنی کے خلاف نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر ان کا اہل بیت میں شامل کرنا قرین قیاس ہے۔
(اہل بیت رضی اللہ عنہم کا مختصر تعارف ، علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی، ص ۷)
No comments:
Post a Comment