ہدایت اور تعلیم کا سب سے کارگر اسلوب یہ ہے کہ صرف زبان سے ہی کہہ کر نہ چھوڑ دیا جائے بلکہ جن چیزوں کی تعلیم دینی ہو ان کا عملی نمونہ بن کر بھی لوگوں کے سامنے آیا جائے، کیونکہ انسان کانوں کے ذریعہ کم اور آنکھوں سے زیادہ سیکھتا ہے، تمام ادیانِ عالم میں یہ شرف پیغمبر اسلام ﷺ کو ہی حاصل ہے کہ وہ تعلیم اور اصول کے ساتھ ساتھ اپنے عمل اور اپنی مثال پیش کرتے ہیں، نماز کا طریقہ اس طرح سکھاتے ہیں ’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘ نمازکی نصیحت فرمائی تو اپنا یہ عالم بنا لیا کہ کھڑے کھڑ ے پائوں سوج جاتے، سجدہ اتنا لمبا ہوتا کہ ایسا لگتا کہ اب سر ہی نہیں اُٹھائیں گے، روزہ کا یہ عالم کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ روزہ رکھنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ اب کبھی افطار ہی نہیں فرمائیں گے۔ بیوی اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ان الفاظ میں دیتے ہیں، خیر کم خیر کم لاھلہ و انا خیر کم لاھلی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کیلئے اچھا ہو اور میں اپنے اہل و عیال کیلئے تم سب سے اچھا ہوں۔ حجۃ الوداع میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ذاتی نظیر اور عملی مثال بھی ہر قدم پر پیش کی جا رہی ہے۔ فرمایا، ’’آج عرب کے تمام انتقامی خون باطل کئے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون معاف کرتا ہوں، ایامِ جاہلیت کے تمام سودی لین دین اور کاروبار آج ختم کئے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں۔‘‘ فتحِ مکہ کے موقعہ پر فاتحِ اعظم کے حسنِ سلوک کو دیکھئے جنہوں نے دشمن کے گھر کو بھی دارالامان بنادیا۔ انسانیت کی پوری تاریخ، عفو و درگذر کی اس مثال سے خالی ہے۔ یہ خصوصیت بھی آپ ﷺ کو ہی حاصل ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی آپ کے پیام اور اسوئہ حسنہ کو زوال و فنا سے محفوظ کر دیا گیا ہے، مقدس زندگی کی ایک ایک ادا، آپ ﷺ کا ایک ایک عمل، ایک ایک فرمان چودہ سو سالوں سے آج تک محفوظ ہے۔ جس طرح قرآنِ مقدس کی حفاظت کی ذمہ داری اسے نازل کرنے والے کی طرف سے لی گئی اسی طرح بیان ِقرآن، معانی قرآن، شرحِ قرآن، تفسیرِقرآن اور حاملِ قرآن کی ایک ایک ادا کی حفاظت کا انتظام بھی قدرتی طور پہ کیا گیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ایک ایک عمل اسی طرح زندہ ہے جس طرح مکہ و مدینہ، بدر و احد، طائف و حنین، خندق و تبوک میں جاری و نافذ تھا۔
No comments:
Post a Comment