آفتابِ ہدایت، امام الانبیاء، حبیب کبریا حضرت محمد مصطفی ﷺ جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو صورتِ حال یہ تھی کہ ولادتِ مبارکہ سے پہلے ہی والد بزرگوار حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کا انتقال ہوچکا تھا؛ لیکن دادا محترم حضرت عبدالمطلب خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھ چکے تھے؛ اس لیے اپنے چوبیس سالہ نوجوان پیارے فرزند عبداللہ کی اس یادگار کو بہت پیار اور محبت دیتے تھے؛ چنانچہ پیدائش کی خبر پاتے ہی نومولود کو بی بی آمنہ سے لے کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعا وغیرہ سے فراغت کے بعد لائے اور محمد نام رکھا؛ جب کہ والدہ ماجدہ نے الہامی نام احمد رکھا، دونوں ہی نام عرب معاشرہ کے لیے نئے تھے۔ قریش نے عبدالمطلب سے کہا کہ یہ نام تو بالکل نیا ہے، تو جواب دیا کہ مسمّیٰ ہی نرالہ ہے۔ سردارِ مکہ نے ساتویں دن ولیمہ کیا اور تمام قریش کی دعوت کی، آپ کے چچا ابولہب نے جب بھتیجے کی ولادت باسعادت کی خبر سنی تو اپنی کنیز محترمہ ثویبہ کو نومولود کی خدمت کے لیے آزاد کردیا، یہ اُن خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جن کو رحمة للعالمین کو دودھ پلانے کی سعادت میسر ہوئی؛ کیوں کہ ابتداء میں آپ ﷺ کو حضرت آمنہ نے اور ان کے بعد حضرت ثویبہ نے دودھ پلایا، انھوں نے ہی حضرت حمزہ رضي الله عنه کو بھی دودھ پلایا تھا؛ اسی لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے چچا بھی تھے اور دودھ شریک بھائی بھی، پھر حضرت ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت عظمیٰ حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصہ میں آئی، جو ظہور اسلام کے بعد مسلمان ہوئیں رضی اللہ عنہا وعنہم۔
No comments:
Post a Comment