آقا ﷺ ہم شرمندہ ہیں

جو ذاتِ گرامی ہماری ہدایت کیلئے آئی تھی آج ہم نے اس کے دیئے ہوئے سبق کو بھلا دیا ہے، ہم صرف محبتِ رسول ﷺ کے دعویٰ کو ہی اپنی نجات کیلئے کافی سمجھ بیٹھے ہیں، ہمارے اعمالِ حسنہ کا پھول مرجھا گیا ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کو ان کی بداعمالی اور بداعتقادی کی وجہ سے ہزاروں سال کی عظمت، فضیلت اور نعمت سے محروم کیا گیا اسی طرح اگر ہم نے اس غلامی کی نعمت اور اس حبل متین کو چھوڑ دیا جس کا نزول قلب امین پر ہوا تھا تو ہم بھی محروم و خاسر ہو جائیں گے۔ گذشتہ دنوں انڈیا میں جو کچھ ہوا، ایک لعین نے شانِ رسالت میں گستاخی کی، اس پر جو احتجاج ہوا اور ہو رہا ہے وہ ہر باضمیر اور محبِ رسول ﷺ کی آواز ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کیا کہ ہم وقتی نعرے تو لگاتے ہیں، لیکن ہمارے دل اور ہمارے اعمال سیرت طیبہ سے کتنے ہم آہنگ ہیں۔ راسوکا کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی گیارہ ماہ کے بعد حکومت اسے رہابھی کر دے گی، ہمارے حوصلے اور ہمارا جذبہ ایمانی دیکھتے ہی دیکھتے سرد ہو جائے گا کیونکہ ان نعروں میں جذباتیت تو ہے لیکن روح سے خالی۔ ہم ڈاڑھی کے مسئلہ پر عدالت توجاتے ہیں لیکن پیروی کار کے چہرے سنت رسول ﷺ سے خالی ہوتے ہیں۔ اسلام کے تعلق سے ساری غلط فہمیاں اسی بے راہ روی کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں ہماری اس بے عملی کافائدہ اٹھا کر اسلام کی غلط تشریح کررہی ہیں۔ حقیقی احتجاج تویہ ہوگا کہ ہم اپنے اندر انقلابی تبدیلی پیدا کریں، ضمیر و دل کاانقلاب ہو، یہ عہد کریں کہ آج سے اپنے محبوب کی کوئی سنت نہیں چھوڑیں گے، اپنے چہرے، لباس، رہن سہن، اخلاق و معاملات سب کچھ اپنے آقا ﷺ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق بنائیں گے۔ ہم وہ زندگی گذاریں گے جو ہمارے محبوب کو محبوب تھی۔ گھریلو معاملات سے لے کر معاشرتی امور تک ہمارا کوئی بھی کام محبوب کی مرضی کے خلاف نہیں ہوگا۔ غیروں کے ساتھ ملنے جلنے میں شادی بیاہ سمیت تمام معاملات میں، بازاروں سے لے کر تنہائی تک صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام رہنے کا عہد کریں۔ تمام رسوم و رواج کے بندھن کو توڑ کر خالص اسلامی زندگی گذاریں گے۔ ہم جائزہ لیں کہ کیا بیوی، والدین، اولاد، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غیروں کے ساتھ ہمارا سلوک وہی ہوتاہے جس کی ایک ایک قدم پر رسول کریم ﷺ نے عملی رہنمائی فرمائی تھی۔ دنیا کا کون سا قانون ہے جو ہمیں اسلامی معاشرت کے ساتھ زندگی گذارنے سے روکتا ہے، کس آئین نے مجبور کیا ہے کہ ہم جہیزکے رواج کو فروغ دے کر نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے تو نکاح کو آسان بنایا تھا، ہمارے معاشرے نے زنا کو آسان بنادیا ہے، کون سا قانون کہتا ہے کہ پڑوس میں بیٹیاں سسکتی رہیں اور تم فضول خرچی کرتے رہو۔ رسول نے تو ہمیں ایک صف میں کھڑا کرکے امت واحدہ بنایا تھا، انتشار کی راہ پر کس چیز نے ہمیں چلنے پر مجبور کیا۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہم نے نبوی تعلیمات سے دوری اختیار کی اللہ نے ظالموں کومسلط کردیا، ظالم حکمرانوں کاتسلط مکافات عمل ہی توہے۔ رسول ﷺ نے زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری مکمل رہنمائی کی ہے جس کے بعد کسی اور راہنماکی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کم از کم روزانہ سو بار درود شریف پڑھیں اور غائبانہ رسول ﷺ سے معافی مانگیں کہ محبوب رب العالمین ہمارے اعمال ایسے ہوگئے کہ ہماری وجہ سے آپ کویہ سب کچھ کہاگیا، ساتھ ہی سیاست چمکانے والے مسلم لیڈران بھی اپنی زبان پر قابور کھیں جن کے بیانات عام مسلمانوں کیلئے نقصاندہ اور جذبات کو مجروح کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نیز قانون سازاداروں کو بھی ایسے قوانین بنانے چاہئیں جو مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والوں کی سخت گرفت کرے۔ خواب خرگوش میں بدمست عرب حکمرانو! تمہاری غیرت کو کیا ہوگیا ہے، اٹھو اور پوچھو اپنے دوست ملک کے ذمہ داروں سے جن کی سرپرستی میں ان جیسوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ سوال کرو ان اہل اقتدار سے جن کے قدموں کیلئے اپنے ملک میں تم نے قالین سجائے تھے۔ جس طرح روضہ رسول ﷺ کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے، اسی طرح حرمت رسول کو نشانہ بناکر عالم اسلام کی غیرتِ ایمانی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ حرمت رسول ﷺ کے مقابلہ میں علاقائی سیاست اور تجارتی مفادات کوئی معنی ٰنہیں رکھتے۔ مسلمانوں کیلئے حرمت رسول ﷺ سے بڑھ کر کوئی سرمایہ نہیں ہوسکتا۔ بس آقا سے یہ گنہگار امتی عرض کرتا ہے کہ آقا ﷺ ہم شرمندہیں، ہم نے خود آپ کی سنت کو فراموش کیا، آپ کی شریعت مطہرہ کے احکام کو خود پامال کیا اور آپ کی غلامی کی قدر نہ کی جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے سب ہمارے اعمال کی سزا ہے۔


No comments:

Post a Comment