وہ آئے جن کے آنے کی دنیا کو ضرورت تھی

ملک عرب میں چاروں طرف جہالت کا راج تھا، سود خوری کا رواج عام تھا، لوگوں کے پاس وقت گزاری کیلئے شراب و کباب اور جُوا تھا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون تھا، صحیح اور غلط کا تصور ختم ہوچکا تھا، بیوہ عورتوں، یتیموں اور کمزوروں کا کوئی حق نہیں تھا، باشندگانِ عرب اللہ کے نام سے ضرور واقف تھے، لیکن اللہ کی ذات کو یکسر فراموش کربیٹھے تھے، اپنی حاجت روائی کیلئے ہر قبیلہ نے اپنا ایک خدا بنا لیا تھا، ذرا ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے باہر آجاتی اور اس وقت تک اندر نہیں جاتی تھی جب تک کہ اپنے مخالفین سے اسے رنگین نہ کرلیا جائے، غرضیکہ ہر وہ برائی جس کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ان کی عادت مستمرہ بن چکی تھی۔ ایسے پرآشوب اور نفرت کے ماحول میں خدائے واحد نے ایک یتیم اور اَن پڑھ بچے کو اپنا آخری رسول بنا کر مبعوث فرمایا، مشیت یہ تھی کہ اسی بے کس و ناتواں کے ذریعہ ایک قبیلہ یا قوم کی نہیں بلکہ ساری انسانیت کی تربیت ہو۔ رسول اللہ کا پورا بچپن اور جوانی اسی ماحول میں گزرا، اس نفرت کے ماحول میں بھی آپ نے محبت کی شمع جلائی، اس ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ کے زمانے میں آپ اپنی صداقت و عدالت کے معاملہ میں بے نظیر رہے، بے حیائی و بے غیرتی کے دلدل میں آپ سب سے زیادہ باحیا اور غیرت مند انسان کی حیثیت سے جانے گئے، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے انہیں لوگوں کے ذریعہ آپ کو ’’الصادق الامین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا مشکل مرحلہ وہ تھا جب آپ نے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا اور برسوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے مظلوم اور بیواؤں کیلئے آواز بلند کی، کسی ایک شخص یا ایک خاندان کی فطرت تبدیل نہیں کرنا تھا بلکہ پورے عرب کی عادت کو بدلنا تھا، جو راہزن تھے انہیں راہبر بنانا تھا، زندگی کے ایک شعبہ میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک واضح تبدیلی کی ضرورت تھی، آپ نے خدائی پیغام کو پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لوگوں کی مخالفت اور دشمنی کے باوجود آپ اپنے کام میں لگے رہے، آپ پر ایمان لانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن آپ نے ہمیشہ انہیں صبر کی تلقین کی، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ کے رخ انور پر تھوکا گیا، آپ کی دو بیٹیوں کو طلاق کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، آپ کی پشت پر اونٹ کی اوجھ رکھی گئی، آپ کو پاگل، دیوانہ، مجنوں کہا گیا، آپ کو ساحر اور شاعر بولا گیا، یہ سارے ستم ڈھانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے تھے، جنہوں نے آپ کو ’’الصادق الامین‘‘ کہا تھا وہ آپ کو ساحر کہنے لگے، جو پوری انسانیت کیلئے روشنی لیکر آیا تھا اس کی زندگی کو شعب ابی طالب میں تاریک کردیا گیا، جو امن و سلامتی کا گہوارہ تھا اُحد کی پہاڑی پر اس کے دندان مبارک شہید ہوئے، جو پورے عالم کو ایک سمجھ کر بلا کسی تفریق کے ہر کسی کیلئے رحمت تھا اس پر پورا عرب چیل کوؤں کی مانند احزاب کے موقع سے جھپٹا مارنے کو تیار تھا، جو لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کیلئے پکار رہا تھا لوگ یکجا ہوکر اس کے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے، جو ساری انسانیت کو پیغام امن سکھا رہا تھا اسے اس کے اپنے ہی شہر سے مایوس ہوکر جانا پڑا، وہ ذات جو عورتوں کیلئے رحمت تھی انہیں عورتوں میں سے ایک بدبخت عورت اس کے کھانے میں زہر ملا رہی تھی، وہ ذات گرامی جس کے منہ سے یہ خوبصورت جملہ ادا ہو کہ سارے انسان بھائی بھائی ہیں، جس نے یہ تعلیم دی ہوکہ نسل، جلد، رنگ، یا وطنی تقسیم کی بنا پر جنگ کرنا یا کسی کو ذلیل و حقیر سمجھنا حماقت ہے، جس نے یہ اعلان کیا ہو کہ ’’الخلق عیال اللہ‘‘ مخلوق تو ساری اللہ کا کنبہ ہے۔ مہر و محبت کے اس پیامبر کو، شفقت و الفت، ہمدردی و انسانیت کے اس سچے پیام رساں کو رحمت عالم نہ کہئے تو آخر کیا کہا جائے، جس نے فتح مکہ کے موقع سے اخلاق حسنہ اور عفو و درگزر کی وہ مثال قائم کی ہے جس کی مثال تاریخ انسانیت دینے سے قاصر ہے، آپ کی ذات گرامی میں قول و فعل کا وہ حسین سنگم تھا جس میں کبھی کوئی تضاد یا اس کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا، آپ کا دربار وہ دربار تھا جہاں سے سائل کبھی محروم نہیں لوٹا، آپ کو اللہ نے ساری دنیا کیلئے رحمت بناکر مبعوث کیا تھا، آپ کی رحمت صرف انسانوں کیلئے نہیں تھی بلکہ ساری مخلوق خدا کیلئے تھی جس میں چرندے، پرندے اور درندے سب شامل ہیں، آپ کی تعلیم یہ تھی کہ خدا کسی خاص قبیلہ یا قوم کا نہیں ہے وہ کسی رنگ و نسل، سردار اور غریب، شاہ و گدا اس طرح کی تمام باتوں سے مبرا اور منزہ ہے، آپ کے بیان کردہ احکامات میں اس قدر جامعیت تھی کہ ہر شخص اسے پیش نظر رکھے اور جہاں تک ممکن ہو ان کے نقش قدم پر چلے، گلستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں لیکن موسم ربیع کا یہ گلدستہ ایسا ہے جو ہر ملک ہر زمانہ ہر قوم کے مشام جاں کو معطر رکھے گا، آج دنیا کی سب سے بڑی شامت یہی ہے کہ اس نے سب سے کامل و مکمل نمونہ کی طرف سے قطع نظر کرلیا ہے، خود ہم کلمہ گویانِ اسلام نے آفتاب ہدایت کی طرف سے آنکھیں بند کرکے خود کو اندھیرے میں ڈال رکھا ہے، یا اگر روشنی کی طلب بھی ہے تو ٹمٹماتے ہوئے چراغوں پر قناعت ہے۔


No comments:

Post a Comment